تو کسی اور کی ہے بات یہ سوچی تو نہ تھی
تو کسی اور کی ہے بات یہ سوچی تو نہ تھی
بے وفائی تری عادت سہی اچھی تو نہ تھی
ہر سہیلی تری کرتی رہی جس کی تعریف
تیرے ہاتھوں پہ لہو تھا مرا مہندی تو نہ تھی
تو جو آیا تو مرے چہرے پہ لوٹی رونق
تجھ سے پہلے مری حالت کبھی ایسی تو نہ تھی
تیری یادوں کی کسک ہے کہ بڑھی جاتی ہے
یہ ہوا رات تری سمت سے گزری تو نہ تھی
جانے کیوں تو اسے کرتا رہا برباد سدا
وہ جو اک دل تھا مرا وہ کوئی دہلی تو نہ تھی
چھوڑ کر جس کو تری سمت چلا آیا ہوں
تجھ سے اچھی تھی وہ لیکن ترے جیسی تو نہ تھی
کیفیت اس کی نہ دیکھی گئی ہم سے عاقبؔ
مصلحت یوں کبھی بازار میں بیٹھی تو نہ تھی