نہ تحریری شواہد نہ زبانی
نہ تحریری شواہد نہ زبانی
بھلا کس کام کی ایسی جوانی
یہ جتنی نعمتیں دی ہیں خدا نے
یہ پرچہ ہے ہمارا امتحانی
کبھی وہ بھی تھے اس دنیا کی رونق
وہ سب جو ہو گئے ہیں آنجہانی
ہمیں تھا اشتیاق وصل لیکن
ہمارے شوق سے ان کو گرانی
یہ کیا ذہنوں پہ کرتے ہو حکومت
کرو دل پر کسی کے حکمرانی
ادھر کردار پر طاری کہولت
مگر باتوں میں شدت کی روانی
محبت پیش قدمی چاہتی ہے
کبھی تم بھی مرے گھر آؤ جانی
مقابل فوج طوفانوں کی عاقبؔ
ادھر کشتی ہماری بادبانی