کچھ سلسلے فلک کے پڑے ہیں اجاڑ سے
کچھ سلسلے فلک کے پڑے ہیں اجاڑ سے رشتے بنے ہوئے ہیں زمین کے پہاڑ سے بے جرم بے گناہ اسیروں کی خیر ہو آتی ہیں دم بدم یہ صدائیں تہاڑ سے بدنام ہوتا ہے وہ جو آگے دکھائی دے جلوہ دکھاتا اور ہی کوئی ہے آڑ سے تم تو چلے گئے مری دنیا کو چھوڑ کر لگ کر کھڑا ہے کون یہ دل کے کواڑ سے آندھی چلے ...