کتنا لمبا ترا سفر دریا
کتنا لمبا ترا سفر دریا
اس کو کر تھوڑا مختصر دریا
اس زمیں پر ہے بے گھری قسمت
مر کے بن جائے اپنا گھر دریا
مل گیا جا کے اب سمندر سے
واہ تو ہو گیا امر دریا
باندھ کر بندھ تجھ کو روک لیا
معرکہ ہو گیا ہے سر دریا
بیچ اپنے جو ہو گئی حائل
اس بلندی سے اب اتر دریا
تیرا سیلاب سنگ دل ہے بہت
اس گھمنڈی کے پر کتر دریا
کچھ نشیب و فراز لازم ہیں
سیدھے سیدھے نہ کر سفر دریا
چشم عاقبؔ میں آ کے ٹھہر ذرا
یوں نہ پھر اب بھی در بدر دریا