گناہوں کی محبت گھٹ رہی ہے
گناہوں کی محبت گھٹ رہی ہے
ابھی گرد کدورت چھٹ رہی ہے
ہماری پیاس کو دریا بھی کم ہیں
مگر پیالوں میں بس تلچھٹ رہی ہے
سمیٹے پھر رہے ہیں نفرتیں ہم
گماں یہ تھا کہ الفت بٹ رہی ہے
ضرورت خوب مہنگی ہو گئی ہے
مگر انساں کی قیمت گھٹ رہی ہے
جسے سن کر دھڑکتا تھا مرا دل
ترے قدموں کی وہ آہٹ رہی ہے
جہاں جا کر ہم اکثر لوٹ آئے
ڈگر تیری طرح پنگھٹ رہی ہے
اسی میں گم ہیں میری آرزوئیں
ترے ماتھے کی جو سلوٹ رہی ہے
سکون دل تھا جس کا نام وہ شے
نہ اس کروٹ نہ اس کروٹ رہی ہے
کوئی پوچھے جو تم سے حال عاقبؔ
کہو الحمد للہ کٹ رہی ہے