سر ورق پہ لکھا انتقام ہے شاید

سر ورق پہ لکھا انتقام ہے شاید
اسی بیاض میں میرا بھی نام ہے شاید


کہا جو میں نے کہ کچھ احتجاج ہے برپا
تو بولے ظل الٰہی عوام ہے شاید


اٹھے جو ہاتھ دعا کو بدل گئے منظر
خدا سے میرا یقیں ہم کلام ہے شاید


میں آؤں تم کو نہ دیکھوں تو پھر پلٹ جاؤں
تمہاری سمت سے یہ انتظام ہے شاید


یہ آب و گل یہ شجر آسمان یہ سورج
کسی کے آنے کا یہ اہتمام ہے شاید


جمی ہوئی ہے نظر آج تم پہ ساقی کی
تمہارے حصے کا گردش میں جام ہے شاید


نماز فجر میں مسجد میں کیوں ہے سناٹا
نمازی کوئی نہیں بس امام ہے شاید