یہ شوخیاں یہ خمار جیسے شراب آنکھیں
یہ شوخیاں یہ خمار جیسے شراب آنکھیں
دکھا رہی ہیں ہر ایک شب ہم کو خواب آنکھیں
ہمیں یقیں ہے کہ کیمروں کی نہیں ضرورت
ہمارا ہر پل جو کرتی ہیں احتساب آنکھیں
لگے ہوئے ہیں قطار میں بے شمار عاقبؔ
نہ جانے کس کا کریں گی اب انتخاب آنکھیں
سوال دل نے کیا محبت کا ڈرتے ڈرتے
تو دے رہی ہیں ادا سے جھک کر جواب آنکھیں
ہے روئے محبوب سامنے اس گھڑی کہ جس کا
طواف کر کے کما رہی ہیں ثواب آنکھیں
پلٹ پلٹ کر یہ دیکھتی ہیں ہماری جانب
جو اپنے قاری کی منتظر وہ کتاب آنکھیں
میں دو ہی آنکھیں لیے زمانے کو دیکھتا تھا
مگر مجھے دیکھتی رہیں بے شمار آنکھیں
سند محبت کی عاشقوں نے یہیں سے پائی
کسی یونیورسٹی کا جامع نصاب آنکھیں
کبھی سراپا کرم ہیں عاقبؔ سراپا رحمت
جو پھر گئیں تو ہوئیں سراپا عذاب آنکھیں