Hasnain Aqib

حسنین عاقب

حسنین عاقب کی غزل

    ہار کر بازی پھر اک تدبیر ہو جاؤں گا میں

    ہار کر بازی پھر اک تدبیر ہو جاؤں گا میں تم سمجھتے ہو یوں ہی تسخیر ہو جاؤں گا میں عشق میں اس کے سوا میں کچھ نہیں کر پاؤں گا ہو بہ ہو جاناں تری تصویر ہو جاؤں گا میں ساتھ چھوٹے گا نہیں اپنا سفر میں عمر کے رہ گزر تو اور ترا رہ گیر ہو جاؤں گا میں آیتیں منسوب ہیں تجھ سے رموز عشق کی اور ...

    مزید پڑھیے

    پاکیزگی نہیں ہے رداؤں میں ان دنوں

    پاکیزگی نہیں ہے رداؤں میں ان دنوں معصومیت رہی نہ اداؤں میں ان دنوں راس آ گئی حسینوں کو شہروں کی روشنی موسم بہت اداس ہے گاؤں میں ان دنوں اصحاب کہف کی طرح جو نیک لوگ ہیں گوشہ‌ نشین ہیں وہ گپھاؤں میں ان دنوں شفاف راستوں سے تو لپٹی ہوئی ہے دھند چھایا ہوا دھواں ہے فضاؤں میں ان ...

    مزید پڑھیے

    وقت گزرا ہے ترے ہجر میں ایسے جاناں

    وقت گزرا ہے ترے ہجر میں ایسے جاناں کوئی مچھلی بنا پانی کے ہو جیسے جاناں ہم کو معلوم تھا تو خوش ہے بچھڑ کر ہم سے پھر بھی ہم یاد میں بے حد تری روئے جاناں ہر گزر گاہ تری مجھ کو تھی منزل کی طرح تو نے دیکھا نہیں مجھ کو کبھی مڑ کے جاناں راہ کانٹوں بھری گلشن میں بدل سکتی تھی ایک دوجے کو ...

    مزید پڑھیے

    ترے دیار سے جنس محال لے آئے

    ترے دیار سے جنس محال لے آئے جواب لانے گئے اور سوال لے آئے بہت سے لوگ کوئی تجھ سا ڈھونڈنے نکلے مجال کس کی جو تیری مثال لے آئے شکاری دیکھتا ہی رہ گیا بہ حیرانی پرندے مل کے اڑے اور جال لے آئے وصال ہجر سیاست مسائل دنیا غزل میں ہم بھی یہ کیا کیا خیال لے آئے ستم ظریفی ہے مشکل پسند ...

    مزید پڑھیے

    پکڑی نہ تھی کتاب کہ استاد ہو گئے

    پکڑی نہ تھی کتاب کہ استاد ہو گئے ہاتھ آ گئی غلیل تو صیاد ہو گئے لے ہم نے کھول دی ہیں یہ آنکھیں شعور کی لے ہم ترے فریب سے آزاد ہو گئے تو نے اے زندگی جو سکھائے ہمیں سبق آسانی سے ہمیں وہ سبق یاد ہو گئے دنیا سے ڈر گئے جو وہ دنیا میں گم ہوئے کرتے رہے جو عشق وہ فرہاد ہو گئے یادیں تری ...

    مزید پڑھیے

    کھوئے ہوئے پلوں کی کوئی بات بھی تو ہو

    کھوئے ہوئے پلوں کی کوئی بات بھی تو ہو وہ مل گیا ہے اس سے ملاقات بھی تو ہو برباد میں ہوا تو یہ بولا امیر شہر کافی نہیں ہے اتنا، فنا ذات بھی تو ہو دنیا کی مجھ پہ لاکھ نوازش سہی مگر میری ترقیوں میں ترا ہات بھی تو ہو ملتی ہیں گور یاں تو سر راہ بھی مگر پنگھٹ ہو گاگری ہو وہ دیہات بھی تو ...

    مزید پڑھیے

    پرانے گھر کا جو سیدھا سا ایک نقشہ تھے

    پرانے گھر کا جو سیدھا سا ایک نقشہ تھے یہ لوگ وہ ہیں جو پہلے کبھی فرشتہ تھے تمہارے حسن نظر نے بنا دیا منزل کبھی نہ جس پہ چلا کوئی ہم وہ رستہ تھے دیار دشمن جاں سے بہت سہارا ملا تمہارے شہر سے نکلے تو دل شکستہ تھے بڑے مزے میں رہے مصلحت کے شہزادے جو سچ کی راہ میں تھے ان کے حال خستہ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 3