G R Kanwal

جی آر کنول

جی آر کنول کی غزل

    اسیر آب و گل کو ایک دن آزاد ہونا تھا

    اسیر آب و گل کو ایک دن آزاد ہونا تھا نئی دنیا میں جانا تھا وہاں آباد ہونا تھا محبت کرنے والو جا رہے ہو اب کہاں مرنے جہاں دل کو لگایا تھا وہیں برباد ہونا تھا خوشی ملتی کہاں سے جب بہ نام گردش دوراں اسے ناشاد کرنا تھا مجھے ناشاد ہونا تھا یہ اپنی خوش نصیبی تھی کہ ہم پہلے چلے آئے ستم ...

    مزید پڑھیے

    جہاں میں ہوں وہاں حالات کا منظر نہیں بدلا

    جہاں میں ہوں وہاں حالات کا منظر نہیں بدلا وہی ہیں چاند تارے رات کا منظر نہیں بدلا اسی انداز سے گرتی ہے بجلی آشیانے پر ہوا گستاخ ہے برسات کا منظر نہیں بدلا اگر بدلا ہے کچھ کچھ جسم و جاں کا روپ باہر سے وہی ہے روح میری ذات کا منظر نہیں بدلا ہزاروں لوگ اب بھی ہاتھ پھیلائے ہیں سڑکوں ...

    مزید پڑھیے

    ماہ کتنے ہیں سال کتنے ہیں

    ماہ کتنے ہیں سال کتنے ہیں ہجر کتنے وصال کتنے ہیں بھیڑ تو بستیوں میں کافی ہے آدمی با کمال کتنے ہیں جنگ تیری بڑی طویل سہی معرکے بے مثال کتنے ہیں لوگ برسوں سمجھ نہیں پاتے ان کے شیشے میں بال کتنے ہیں جس کی قسمت میں ہیں عروج بہت دیکھ یہ بھی زوال کتنے ہیں تو ہے خاموش اور برسوں ...

    مزید پڑھیے

    دن مہینہ سال بہتر ہو گیا

    دن مہینہ سال بہتر ہو گیا رفتہ رفتہ حال بہتر ہو گیا زندگی کا اونچا نیچا راستہ جب ہوا پامال بہتر ہو گیا چھو لیا جس کو نئے صیاد نے وہ پرانا جال بہتر ہو گیا کر لیے جس دن قبول اپنے گناہ نامۂ اعمال بہتر ہو گیا آ گیا جب خوب صورت ہاتھ میں تھا جو بد تر مال بہتر ہو گیا

    مزید پڑھیے

    بحر و بر میں کلام اس کا ہے

    بحر و بر میں کلام اس کا ہے ذکر اس کا ہے نام اس کا ہے سب کو دیتا ہے وہ شراب اپنی ہے جو گردش میں جام اس کا ہے محو حیرت ہیں دیکھنے والے اتنا اونچا مقام اس کا ہے ہے وہی حرف حرف تابندہ جس کے اندر پیام اس کا ہے وہ ہے غائب مگر ازل ہی سے ہر قدم پر نظام اس کا ہے رہ گزر اس کے قافلے اس کے رخش ...

    مزید پڑھیے

    متاع ہوش لٹ جانے کے دن ہیں

    متاع ہوش لٹ جانے کے دن ہیں دل ناداں کو سمجھانے کے دن ہیں میں ہر موسم میں ان سے پوچھتا ہوں کدھر جاؤں کدھر جانے کے دن ہیں نیا پن سرد ہوتا رہا ہے پرانی آگ سلگانے کے دن ہیں بشر کی زندگی کے چار دن بھی کہاں جینے کے مر جانے کے دن ہیں نہیں ہموار راہ زندگانی کبھی کھونے کبھی پانے کے دن ...

    مزید پڑھیے

    نئے انداز سے دیدار کر لوں پھر چلے جانا

    نئے انداز سے دیدار کر لوں پھر چلے جانا میں اپنی روح کو بیدار کر لوں پھر چلے جانا ہزاروں خواب دیکھے تھے مری معصوم آنکھوں نے میں ان کا سرسری اظہار کر لوں پھر چلے جانا ہوس نے آج تک جو عیش کے پیکر بنائے ہیں انہیں پوری طرح مسمار کر لوں پھر چلے جانا تمہاری دید کے جو منتظر تھے ایک مدت ...

    مزید پڑھیے

    فقیرانہ صدا خاموش کیوں ہے

    فقیرانہ صدا خاموش کیوں ہے قلندر کی نوا خاموش کیوں ہے جسے مقصود تھا بس گنگنانا وہی باد صبا خاموش کیوں ہے صداقت کچھ بتا اب محفلوں میں ترا نغمہ سرا خاموش کیوں ہے فنا جب ہر طرف منڈلا رہی ہے تو ایسے میں بقا خاموش کیوں ہے ہے موسم لب کشائی کا چمن میں شجر گم صم ہوا خاموش کیوں ہے دیے ...

    مزید پڑھیے

    تجھ سے بچھڑے بھی تو حالات نے رونے نہ دیا

    تجھ سے بچھڑے بھی تو حالات نے رونے نہ دیا دل شکن وقت کے لمحات نے رونے نہ دیا دن کو فرصت نہ ملی اشک بہانے کی کبھی رات آئی تو مجھے رات نے رونے نہ دیا اس کی آنکھیں بھی رہیں خشک ہمیشہ کی طرح مجھ کو بھی آج کسی بات نے رونے نہ دیا اشک مایوس سوالی کی طرح لوٹ گئے وہ ملا بھی تو ملاقات نے ...

    مزید پڑھیے

    اجنبی رہ گزر کے تھے ہی نہیں

    اجنبی رہ گزر کے تھے ہی نہیں ہم جدھر تھے ادھر کے تھے ہی نہیں چھوڑ کر اپنا گھر کہاں جاتے ہم کسی اور گھر کے تھے ہی نہیں کیسے آتے وہ ہم سفر واپس جو ہمارے سفر کے تھے ہی نہیں جو نہ آئے ہمارے دامن میں پھل ہمارے شجر کے تھے ہی نہیں وہ نظارے جو ہم سے دور رہے وہ ہماری نظر کے تھے ہی ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2