نئے انداز سے دیدار کر لوں پھر چلے جانا
نئے انداز سے دیدار کر لوں پھر چلے جانا
میں اپنی روح کو بیدار کر لوں پھر چلے جانا
ہزاروں خواب دیکھے تھے مری معصوم آنکھوں نے
میں ان کا سرسری اظہار کر لوں پھر چلے جانا
ہوس نے آج تک جو عیش کے پیکر بنائے ہیں
انہیں پوری طرح مسمار کر لوں پھر چلے جانا
تمہاری دید کے جو منتظر تھے ایک مدت سے
مزین وہ در و دیوار کر لوں پھر چلے جانا
وہ جن کو تھام کر تم نے مجھے جنبش عطا کی تھی
میں ان ہاتھوں سے تم کو پیار کر لوں پھر چلے جانا
وہ جس پر ٹھوکریں کھا کر کنولؔ سے ملنے آئے ہو
وہ رستہ شوق کا ہموار کر لوں پھر چلے جانا