اسیر آب و گل کو ایک دن آزاد ہونا تھا
اسیر آب و گل کو ایک دن آزاد ہونا تھا
نئی دنیا میں جانا تھا وہاں آباد ہونا تھا
محبت کرنے والو جا رہے ہو اب کہاں مرنے
جہاں دل کو لگایا تھا وہیں برباد ہونا تھا
خوشی ملتی کہاں سے جب بہ نام گردش دوراں
اسے ناشاد کرنا تھا مجھے ناشاد ہونا تھا
یہ اپنی خوش نصیبی تھی کہ ہم پہلے چلے آئے
ستم جو اس کو ڈھانا تھا ابھی ایجاد ہونا تھا
کنولؔ شہر نگاراں میں تھا اتنا ہوش کب دل کو
کہاں رہنا تھا بندش میں کہاں آزاد ہونا تھا