اجنبی رہ گزر کے تھے ہی نہیں
اجنبی رہ گزر کے تھے ہی نہیں
ہم جدھر تھے ادھر کے تھے ہی نہیں
چھوڑ کر اپنا گھر کہاں جاتے
ہم کسی اور گھر کے تھے ہی نہیں
کیسے آتے وہ ہم سفر واپس
جو ہمارے سفر کے تھے ہی نہیں
جو نہ آئے ہمارے دامن میں
پھل ہمارے شجر کے تھے ہی نہیں
وہ نظارے جو ہم سے دور رہے
وہ ہماری نظر کے تھے ہی نہیں
ساتھ چلتے کسی کے ہم کب تک
ہم پرائی ڈگر کے تھے ہی نہیں
چل دئے چھوڑ کر جو یار کنولؔ
وہ ہمارے نگر کے تھے ہی نہیں