ماہ کتنے ہیں سال کتنے ہیں
ماہ کتنے ہیں سال کتنے ہیں
ہجر کتنے وصال کتنے ہیں
بھیڑ تو بستیوں میں کافی ہے
آدمی با کمال کتنے ہیں
جنگ تیری بڑی طویل سہی
معرکے بے مثال کتنے ہیں
لوگ برسوں سمجھ نہیں پاتے
ان کے شیشے میں بال کتنے ہیں
جس کی قسمت میں ہیں عروج بہت
دیکھ یہ بھی زوال کتنے ہیں
تو ہے خاموش اور برسوں سے
میرے دل میں سوال کتنے ہیں
کیا خبر ہے کنولؔ مجھے کھو کر
اس کے دل میں ملال کتنے ہیں