G R Kanwal

جی آر کنول

جی آر کنول کی غزل

    دکھا کے اپنی حسیں آن بان پل بھر میں

    دکھا کے اپنی حسیں آن بان پل بھر میں وہ دور کر گیا میری تھکان پل بھر میں بغیر آگ لگائے بھی کچھ حسینوں نے جلا دئے ہیں کئی جسم و جان پل بھر میں تمام لوگ اسی ڈر میں مر رہے ہیں یہاں بچھڑ نہ جائیں زمیں آسمان پل بھر میں نماز عشق بھی پڑھتا وہ کاش رک جاتا جو دے گیا مرے دل میں اذان پل بھر ...

    مزید پڑھیے

    جس کی بنیاد ہو جوانی پر

    جس کی بنیاد ہو جوانی پر دیر لگتی ہے اس کہانی پر آج پھر ڈوبنے کا خدشہ ہے آج دریا ہے پھر روانی پر جانے کیا سوچ کر ہواؤں نے لکھ دیا نام میرا پانی پر عکس اپنا اسے بھی اچھا لگا خوش ہوا میں بھی نقش ثانی پر جی بھی تھا اس کے ساتھ چلنے کا شک بھی تھا اس کی پاسبانی پر کوئی سلطان ہو سکا نہ ...

    مزید پڑھیے

    زندگی کا نصاب بے معنی

    زندگی کا نصاب بے معنی اس کے حق میں کتاب بے معنی حاصل تجربات خاموشی سب سوال و جواب بے معنی خواب ٹوٹا ہوا ستارۂ شب اور تعبیر خواب بے معنی حسن کے بے شمار جلوے ہیں زحمت انتخاب بے معنی وہی بندے وہی چلن ان کا نعرۂ انقلاب بے معنی اک خیالی بہشت کی خاطر فکر روز حساب بے معنی فرد کے ...

    مزید پڑھیے

    وہ ستم گر جدھر گیا ہوگا

    وہ ستم گر جدھر گیا ہوگا اک زمانہ ادھر گیا ہوگا آنے والا زمیں پہ آتا تھا جانے والا کدھر گیا ہوگا گاہے گاہے تو خود سمندر بھی اپنی لہروں سے ڈر گیا ہوگا چارہ گر بے سبب نہیں روتا کوئی بیمار مر گیا ہوگا جس پہ غم کی نظر پڑی ہوگی اس کا چہرہ نکھر گیا ہوگا دل جو بگڑا ہوا تھا مدت سے چوٹ ...

    مزید پڑھیے

    شب وہی لیکن نظارا اور ہے

    شب وہی لیکن نظارا اور ہے روشنی کم ہے ستارا اور ہے کشتیاں تو ایک جیسی ہیں تمام ہیں الگ دریا کنارا اور ہے اس طرف لہروں کا منظر ہے الگ اس طرف پانی کا دھارا اور ہے مشترک ہیں منزلیں لیکن سفر ہے جدا ان کا ہمارا اور ہے پہلے کہتے تھے صنم کو ماہتاب عہد نو کا استعارا اور ہے روح کے دم سے ...

    مزید پڑھیے

    پہلے احباب کی کہانی لکھ

    پہلے احباب کی کہانی لکھ پھر ہر اک لفظ کے معانی لکھ کیوں ترے اپنے غم گساروں سے زخم خوردہ ہے زندگانی لکھ خوبیاں لکھ شراب کی لیکن روح افزا ہے صرف پانی لکھ دیکھ کر بحر و بر کے ہنگامے کوئی دلچسپ سی کہانی لکھ دل کے صحرا میں گرم اشکوں سے کیسے ہوتی ہے باغبانی لکھ حرف اول سے لکھ کے ...

    مزید پڑھیے

    گھر نہیں رہ گزر میں رہتا ہے

    گھر نہیں رہ گزر میں رہتا ہے پاؤں میرا سفر میں رہتا ہے وہ چلا جائے تو بھی پہروں تک اس کا چہرہ نظر میں رہتا ہے جا چکا ہے جو بزم ہستی سے وہ بھی دیوار و در میں رہتا ہے چارہ گر کا کرم تو ہے پھر بھی درد ہی درد سر میں رہتا ہے جس نے تشکیل کی ہے میری کنولؔ میرے قلب و جگر میں رہتا ہے

    مزید پڑھیے

    دریچہ ہو کہ در الجھا ہوا ہے

    دریچہ ہو کہ در الجھا ہوا ہے مرا تو گھر کا گھر الجھا ہوا ہے بدن کے پیچ و خم تو جھیل لیتے قیامت ہے کہ سر الجھا ہوا بڑی سیدھی ہے چاہت منزلوں کی مگر ذوق سفر الجھا ہوا ہے نہ جانے کیا ہوا ہے آدمی کو جدھر دیکھو ادھر الجھا ہوا ہے کنولؔ کٹتا ہے میرا وقت جس میں وہ دفتر بیشتر الجھا ہوا ...

    مزید پڑھیے

    ہو نوشتہ یہ بھی جیسے کاتب تقدیر کا

    ہو نوشتہ یہ بھی جیسے کاتب تقدیر کا کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر تصویر کا حلقۂ اہل زباں میں خوش ہوں میں یہ دیکھ کر منفرد لہجہ ہے میرے دوست کی تقریر کا تا ابد سمجھے نہ جس کو ابن آدم کا دماغ جز کوئی ایسا نہ ہو یا رب تری تحریر کا ہے تصور پاس جس کے سیر عالم کے لئے کیا اثر ہو اس کے پاؤں پر ...

    مزید پڑھیے

    انا کی قید سے آزاد ہو کر کیوں نہیں آتا

    انا کی قید سے آزاد ہو کر کیوں نہیں آتا جو باہر ہے وہ میرے دل کے اندر کیوں نہیں آتا اڑان اس کی اگر میرے ہی جیسی ہے فضاؤں میں تو قد اس کا مرے قد کے برابر کیوں نہیں آتا میں پہلے شیشۂ دل کو کسی کھڑکی میں رکھ آؤں پھر اس کے بعد سوچوں گا کہ پتھر کیوں نہیں آتا چھپا لیتی ہے دنیا کس طرح یہ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2