خواب کے آخری حصے میں
جسم بے جان ہے پتھر سی بنی ہیں آنکھیں
اور اک خوف کا ملبوس پہن کر کوئی
گھورتا رہتا ہے
ہر وقت خلا میں شاید
آئینہ خانوں کی
مقہور نما چاہت میں
عکس در عکس بکھرتی ہوئی پرچھائیاں ہیں
اور سناٹوں کی
گمبھیر صدا ہے ہر سو
شاخ در شاخ خزاں نوحہ کناں ہے ہر سو
ایسے ماحول میں جینا بھی ہے
خواب کے آخری حصے میں
حسین ابن علی
ایک پیغام یہی دے کے گزر جاتے ہیں