خاموشی کا شور

بادلوں کے خون سے چپکی ہوئی اس شام میں
اڑ رہے تھے
کچھ پرندے
لڑکھڑاتی آہٹوں کے
کارواں کے ساتھ میں
شہر گردی میں رہا
گھر کا رستہ یاد آتا ہی نہ تھا
کس قدر میں ڈر گیا تھا
نیند کی خاموشیوں کے شور سے