مقفل چپ
میں کہ گفتار کا ماہر تھا جہاں دیدہ تھا
لوگ سنتے تھے مری اور سناتے بھی تھے
اپنے دکھ درد میں ڈوبی ہوئی ساری باتیں
مسئلہ کون سا ایسا تھا جسے حل نہ کیا
آج بھی بھیڑ تھی لوگوں کی مرے چاروں طرف
میں نے ہر ایک کو باتوں میں سکوں یاب کیا
پھر کوئی دور سے دیتا ہے صدا کون ہو تم
آئے ہو کون سی نگری سے ذرا نام تو لو
نام تو میں نے بتایا اسے فوراً اپنا
اور میں کون ہوں آیا ہوں میں کس نگری سے
میں نے جب خود سے یہ پوچھا تو مسلسل چپ تھی
چاروں اطراف میں صدیوں کی مقفل چپ تھی