ہم زاد
جو چلتا ہے تو قدموں کی کوئی آہٹ نہیں ہوتی
تلاش فرق نیک و بد کی خواہش کو لیے دل میں
گزرتا ہے غبار زیست کی گم نام گلیوں سے
دھندلکا سا کوئی ہے یا کوئی بے خواب سی شب ہے
کوئی بے نور رستہ ہے کہ جس میں کھو گیا ہوں میں
کوئی آواز ہے جو اک دریدہ پیرہن پہنے
ہجوم بے سر و پا میں کئی صدیوں سے رہتی ہے
گزرتی ہے تو ہر جانب سکوت مرگ بہتا ہے
کھنڈر میں سانس لیتا ہے
کوئی بے خانماں سایہ مجھے آواز دیتا ہے