Ekram Khawar

اکرام خاور

اکرام خاور کی نظم

    دست تہہ سنگ

    شرق سے غرب تک عرش سے فرش تک یا کراں تا کراں ایک سناٹا پھیلا ہوا میری بیکل جبیں کے طلسمات سے تیری بے چین بانہوں کے الہام تک تشنہ ہونٹوں سے ہلچل بھرے جام تک ان کی آنکھوں کے روشن دیوں سے مری ارغوانی گھنی شام تک یا کراں تا کراں ایک سناٹا پھیلا ہوا کہکشاں بجھ گئی راستے میں کہیں رنگ ...

    مزید پڑھیے

    بساط رقص

    مجھے لکھنا تھا سرشاری مجھے لکھنا تھا دل داری مجھے لکھنا تھا اپنا حلف نامہ اور بیان استغاثہ بادشاہ وقت کے مغرور ایوان عدالت میں امڈتی خلق کی موجودگی میں واردات قتل خوباں کے حقائق اور بیان خلق برہم میں قاصد تھا غلاموں کا فرستادہ مرے ہونے میں مضمر تھی خرابی جملہ امکانات مہلک اک ...

    مزید پڑھیے

    دل پر خوں

    دل بہت دکھتا ہے ہر بات پہ دل دکھتا ہے صبح نوخیز پہ سورج کی جہاں بانی پہ شام دل دوز پہ انجام گل اندامی پہ عکس موجود پہ انوار رخ زیبا پہ نقش موہوم پہ اخف دل فردا پہ بست افلاک پہ افسانۂ رعنائی پہ شرۂ نیرنگیٔ ہستی و زلیخائی پہ رات کے سوز پہ شاموں کے مہک جانے پہ حدت شوق میں کلیوں کے چٹخ ...

    مزید پڑھیے

    المیہ

    میری شورش جدا آنکھوں نے مجھ سے یوں کہا کل شب یہ دھیمی آنچ کا جلنا تجھے دیوانہ کر دے گا میں کیا کرتا کہاں جاتا کہ حائل تھا مرے سینہ میں اک محبوس سناٹا تعین کون کرتا ہم کہاں پر خیمہ زن ہیں مسلط ہے سروں پر کون سا منحوس سایا اور ایسے میں تلاطم روز و شب تیری لگن کا جان لیوا ہے بڑے ہی جاں ...

    مزید پڑھیے

    شہر آشوب

    جن دنوں میں اپنی تنہائی کا نوحہ لکھ رہا تھا بستیاں آباد تھیں رونق بھری تھی شام اور جاڑا گلابی تازہ تازہ شہر میں داخل ہوا تھا جن دنوں میں پا پیادہ اور پھر صدا زباں میں سوز ہائے اندروں کے قصۂ پارینہ کی تفصیل میں تعبیر میں الجھا ہوا تھا بھیڑیے آزاد تھے اور ایک قاتل راگ بجاتا جا رہا ...

    مزید پڑھیے

    محشر

    دل وحشی جنوں کی کون سی منزل تھی کل شب جہاں باہم ہوئے قزاق و دل بر چلے خنجر گلے پر آستیں پر دل و دامن پہ دستار و جبیں پر عجب ایک شور تھا محشر بپا تھا بہت آہ و فغاں اندوہ جانی ہزاروں زخم اور ایک سخت جانی نہ جانے شدت یلغار کیا تھی نہیں معلوم کیا مدت رہی کشت نگاراں کی کھلی جب آنکھ ...

    مزید پڑھیے

    ماورا

    بیسویں صدی کے آخری برسوں میں ایک گہراتی ہوئی شام کو جب پرندوں اور پتوں کا رنگ سیاہ ہو چکا تھا اور دکھ کا رنگ ہر رنگ پر غالب تھا ماں ٹوٹ چکی تھی محبوبہ روٹھ چکی تھی ہفتہ وار تعطیل کی فراغت سے مطمئن سرشاری کے ایک لمحے کو بے قرار شاعر لکھنے بیٹھا گرد و پیش کی دنیا نہایت آہستگی ...

    مزید پڑھیے

    مرحلہ

    نہ اس کے عشق کے کام آ سکا میں نہ اپنی آگ کو بھرما سکا میں نہ شور آرزو نے راہ پائی نہ درد بے خودی تھی نے رسائی زمانہ اپنے محور پر رواں تھا محض ایک آگ تھی جلنے میں کیا تھا خدایا کس طرح سر ہو سکے گی دل و دیدہ کی یہ پر داغ محفل

    مزید پڑھیے

    دیوانگی

    بہت کچھ چاہتا تھا میں ہمیشہ چاہتا تھا میں کہ دنیا خوب صورت ہو کہ جیسی پیار کرتے وقت ہوتی ہے چاہتا تھا شام ہوتے ہی اتر آئے فلک سے چاند بچوں کی ہتھیلی میں کہ شب تاریک ہو جتنی مگر نم ہو کھنک ہو اور پورب کی ہوائیں سبک رفتار گزریں چھتوں پر اوس ہو اور آنگنوں میں کہکشاں اترے ہمیشہ چاہتا ...

    مزید پڑھیے

    دیدنی تھی شکستگی دل کی

    چاہے جس طور بیاں کیجئے افسانۂ درد جسم کو خوف بہت جان کو اندیشے تھے چاہے جس طور رقم کیجے گراں جانیٔ دل خوں میں ہنگامہ بہت راہ میں ویرانے تھے لاکھ چاہا دل مضطر کی کشاکش سے سوا رقص بے پروہ و بے باک کا آغاز کروں خون دل اشک کروں اشک گہر تاب کروں پس دیوار قفس سینۂ دل چاک کروں لاکھ چاہا ...

    مزید پڑھیے