مرحلہ

نہ اس کے عشق کے کام آ سکا میں
نہ اپنی آگ کو بھرما سکا میں
نہ شور آرزو نے راہ پائی
نہ درد بے خودی تھی نے رسائی
زمانہ اپنے محور پر رواں تھا
محض ایک آگ تھی جلنے میں کیا تھا


خدایا کس طرح سر ہو سکے گی
دل و دیدہ کی یہ پر داغ محفل