دیدنی تھی شکستگی دل کی

چاہے جس طور بیاں کیجئے افسانۂ درد
جسم کو خوف بہت جان کو اندیشے تھے
چاہے جس طور رقم کیجے گراں جانیٔ دل
خوں میں ہنگامہ بہت راہ میں ویرانے تھے
لاکھ چاہا دل مضطر کی کشاکش سے سوا
رقص بے پروہ و بے باک کا آغاز کروں
خون دل اشک کروں اشک گہر تاب کروں
پس دیوار قفس سینۂ دل چاک کروں
لاکھ چاہا دل شوریدہ پہ مشکیں تھی بہت
لب مشتاق پہ بوٹوں کی زباں رکھی تھی


جان گھبراتی تھی اندوہ سے تن میں کیا کیا
جان گھبراتی ہے اندوہ سے تن میں کیا کیا