محشر

دل وحشی جنوں کی کون سی منزل تھی کل شب
جہاں باہم ہوئے قزاق و دل بر
چلے خنجر گلے پر آستیں پر
دل و دامن پہ دستار و جبیں پر
عجب ایک شور تھا محشر بپا تھا


بہت آہ و فغاں اندوہ جانی
ہزاروں زخم اور ایک سخت جانی


نہ جانے شدت یلغار کیا تھی
نہیں معلوم کیا مدت رہی
کشت نگاراں کی
کھلی جب آنکھ تو
ایک ٹوٹتے نشہ کا عالم تھا
شفق گوں تھا افق دل کا
چمن کا راستہ دھبوں سے پر تھا
اور صبا دامن میں اپنے خون کی بو باس رکھتی تھی
نظارہ دیدنی تھا
اور دل بیتاب نے دیکھا


لہو سے لال ہے صحن چمن اور ہر طرف
بد رنگ خوں کی لالہ کاری ہے
نگینہ دل کا سو ٹکڑے پڑا ہے
اور ہر ٹکڑے میں کوئی عکس وحشی ہے


دل و دلبر کی آشفتہ سری ہے
دل و دلبر کی راہوں میں
فقط شیشے کی کرچیں ہیں