المیہ

میری شورش جدا آنکھوں نے مجھ سے یوں کہا کل شب
یہ دھیمی آنچ کا جلنا تجھے دیوانہ کر دے گا
میں کیا کرتا کہاں جاتا
کہ حائل تھا مرے سینہ میں اک محبوس سناٹا
تعین کون کرتا ہم کہاں پر خیمہ زن ہیں
مسلط ہے سروں پر کون سا منحوس سایا
اور ایسے میں تلاطم روز و شب تیری لگن کا
جان لیوا ہے
بڑے ہی جاں گسل ہیں تیری چاہت کے صنم خانے


محبت خون دل کیوں ہے
تمنا سوز جاں کیوں ہے
رفیقان سفر اتنا بتانا
آرزو ایک المیہ کیوں ہے