شہر آشوب

جن دنوں
میں اپنی تنہائی کا نوحہ لکھ رہا تھا
بستیاں آباد تھیں رونق بھری تھی شام
اور جاڑا گلابی
تازہ تازہ شہر میں داخل ہوا تھا
جن دنوں میں
پا پیادہ اور پھر صدا زباں میں
سوز ہائے اندروں کے قصۂ پارینہ کی تفصیل میں تعبیر میں
الجھا ہوا تھا
بھیڑیے آزاد تھے
اور ایک قاتل راگ
بجاتا جا رہا تھا
خوب تر سے خوب تر تھا
قتل کا نغمہ
جس نے جو سمجھا وہی تاریخ تھی
خواجہ سرائے شہر دار السلطنت میں
کربلا کے حزن میں
ایک وحشیانہ رقص کی تخلیق میں مصرف تھا
اور سب تماشائی سبھی مقتول سارے
دم بخود مبہوت خاموشی سے سنتے جا رہے تھے
اور موسیقی سے لگ بھگ نابلد ہر شخص
اگلی صف میں بیٹھا
تال کی ہر گت پر ہر جھنکار پہ
بے حال ہوتا جا رہا تھا


ایک قاتل اور سریلا راگ
بجاتا جا رہا تھا