سفر کو پھر وہیں لے جا رہے ہیں
سفر کو پھر وہیں لے جا رہے ہیں
خطوط ان کے انہیں لوٹا رہے ہیں
ہماری موت کے کیا فائدے ہیں
ہم اپنے آپ کو سمجھا رہے ہیں
کہاں کے راہبر کیسی مسافت
ہمیں یہ لوگ بس ٹہلا رہے ہیں
غزل شعر و سخن کچھ بھی نہیں بس
ہم اپنے آپ سے بتلا رہے ہیں
ذرا سی بات ہے کیسا تماشہ
انہیں جانا تھا اور وہ جا رہے ہیں
ستم یہ ہے کہ جس کو چھوڑنا ہے
اسی کو ساتھ میں لے جا رہے ہیں
یہ کہہ کر جو بھی چاہو گے وہ ہوگا
وہ اپنی بات ہی منوا رہے ہیں
وہ جو رہتے ہیں اک دریا کنارے
وہ ہم کو تشنگی سمجھا رہے ہیں
اجالوں کے لیے کھولی تھی کھڑکی
مگر گھر سے اندھیرے جا رہے ہیں