بڑا ہی تلخ لہجہ ہے زباں پر
بڑا ہی تلخ لہجہ ہے زباں پر
لئے ہو بوجھ کیسا جسم و جاں پر
نشاں دیوار دل کا کہہ رہا ہے
کوئی تصویر تھی پہلے یہاں پر
جہاں وہ دکھ رہے ہوتے ہیں پھر تو
کوئی دکھتا نہیں ہم کو وہاں پر
مری قیمت مجھے بھی جاننی تھی
سو میں نے رکھ دیا خود کو دکاں پر
جہاں کا ہر مسافر راہبر ہو
ترس آتا ہے ایسے کارواں پر
مرا دار و مدار زندگی بھی
ٹکا ہے بس تمہاری ایک ہاں پر
نہ جانے کون سا گھر ہو تمہارا
سو دستک دے رہا ہوں ہر مکاں پر
اسے حیران کرنا تھا سو میں نے
زمیں لے جا کے رکھ دی آسماں پر