یہ ترک ربط تو فردا پہ ٹال رکھنا تھا

یہ ترک ربط تو فردا پہ ٹال رکھنا تھا
کسی بھی حال میں رشتہ بحال رکھنا تھا


دلوں کی تلخیاں سڑکوں پہ کھینچ لایا تو
پرانے ربط کا کچھ تو خیال رکھنا تھا


یہ اس کی سوچ ہے اپنی وفا کرے نہ کرے
تمہیں تو اپنا کلیجہ نکال رکھنا تھا


یوں گفتگو کا کوئی سلسلہ بڑھانے کو
ہمیں جواب میں پھر سے سوال رکھنا تھا


مرے خیال کی جنبش بھی بھانپنے والے
تمہارا نام تو ہم کو غزال رکھنا تھا


میں اٹھا اور ترے پاس کوئی بیٹھ گیا
مری یہ بھول تھی مجھ کو رومال رکھنا تھا