کبھی کبھی ہی وہ مجھ سے نہیں جھگڑتا ہے

کبھی کبھی ہی وہ مجھ سے نہیں جھگڑتا ہے
وگرنہ دیکھتا ہے اور ٹوٹ پڑتا ہے


مری نظر سے تو ہے دور وہ بہت لیکن
مرے خیال کے ہاں آس پاس پڑتا ہے


ہرا بھرا تو بہت تھا وہ بانس کا جنگل
کسے پتا تھا مگر آگ بھی پکڑتا ہے


یقین اس کی رفاقت کا کر رہا ہوں میں
کہ جس کا کام میرے دشمنوں سے پڑتا ہے


یہیں پہ ربط میں آتا ہے ایک دوراہا
یہیں پہ آ کے مرا رابطہ بگڑتا ہے


میں ایسی جنگ میں ہوں ایک ایسی جنگ جہاں
مرا خلوص ہی میرے خلاف لڑتا ہے