آئینے کے اس طرف سے اس طرف آتے ہوئے
آئینے کے اس طرف سے اس طرف آتے ہوئے
عمر گزری ہے خودی کو خود سے ملواتے ہوئے
یوں سمجھ لیجے ہماری عشق میں بے چارگی
ڈوب جانا تھا ہمیں تیراکیاں آتے ہوئے
جانے اس شب کیا ہوا تھا میری عقل و ہوش کو
خود بہکنے لگ گیا تھا اس کو سمجھاتے ہوئے
بے سبب کچھ بھی نہیں تھا بے سبب تنقید بھی
وہ مٹائے جا رہا تھا نقش پا جاتے ہوئے
آپ کے پیچھے گزاری زندگی مت پوچھئے
کاٹنی تھی کاٹ لی روتے ہوئے گاتے ہوئے
اب نہ لیجے نام اس کا دل کہ جس کی ضد کئے
سو گیا ہے تھک تھکا کر روتے چلاتے ہوئے