Daud Ghazi

داؤد غازی

ترقی پسند نظریات سے متأثر شاعر، کم عمری میں خودکشی کی

A poet influenced by progressive thoughts, committed suicide at an early age

داؤد غازی کی نظم

    آغاز

    اک نئے دور کا آغاز ہوا در آشفتہ سری باز ہوا نا شکیبائی کی چلتی ہے ہوا بے یقینی کی ابھرتی ہے صدا آئے منڈلاتے ہوئے ابر شعور لیے ہم راہ خیالات جسور منتظر شوق ہے بے چین نڈھال جانے کب موسم باراں آئے ہائے تبدیلی موسم کی امید رنگ لائے ہے بتدریج جنوں ٹوٹنے والا ہے ہر ایک فسوں ہاں خداؤں کی ...

    مزید پڑھیے

    تہذیب

    یہ تہذیب آخر بنائی ہے کس نے زمانے کی عزت بڑھائی ہے کس نے بنا کر بدلنے کا مختار ہے کون حیات مسلسل کا فن کار ہے کون مشینوں میں کس کا لہو چل رہا ہے یہ کس کے لہو پر جہاں پل رہا ہے بتا دو خدا کے لیے اب بتا دو حقیقت کے چہرے سے پردہ اٹھا دو

    مزید پڑھیے

    غم حیات

    غم حیات کے نغموں کا میں مغنی ہوں غم حیات کی لذت کا ہوں میں شیدائی یہ جذبہ جو دل بیتاب سے فزوں تر ہے کہیں سے گردش شام و سحر اڑا لائی نظر کو دیتا ہے یہ روشنی تجسس کی یہ غم بناتا ہے دل کو دل تمنائی یہ راز ہائے تگ و دو کو فاش کرتا ہے یہ راہرو کو سکھاتا ہے جادہ پیمائی اسی سے گرمیٔ بزم حیات ...

    مزید پڑھیے

    امید

    زیست یوں ہی نہ رہے گی مغموم زندگانی کو بدلنا ہوگا لاکھ آمادۂ سازش ہے یہ شب اس شب تیرہ کو ڈھلنا ہوگا موت کا سایہ لرزتا ہے تو کیا وقت آلام کو لایا ہے تو کیا نامۂ درد جو آیا ہے تو کیا غم کو سہہ جائیں دلاور بن کر پی لیں دریا کو سمندر بن کر غم تو آتے ہی رہیں گے پیہم آتے جاتے ہی رہیں گے ...

    مزید پڑھیے

    رات

    رات کے اندھیرے میں کتنے پاپ پلتے ہیں پوچھتا پھرے کوئی کس سے کون پاپی ہے پوچھنے سے کیا حاصل پوچھنے سے کیا ہوگا محشر اک بپا ہوگا شور ناروا ہوگا درد کم تو کیا ہوگا اور کچھ سوا ہوگا کون کس کی سنتا ہے کس کو اتنی فرصت ہے داد خواہ بننا بھی فعل بے فضیلت ہے داد سم قاتل ہے مرنا کس کو بھاتا ...

    مزید پڑھیے

    ملاقات

    ایک چوراہے پہ سب لوگ چلے آتے ہیں ایک چوراہے پہ ملتے ہیں گزر جاتے ہیں ان گنت زاویے افکار کے لے آتے ہیں ان کھلونوں سے وہ اذہان کو بہلاتے ہیں اپنے کرتب پہ وہ اٹھلاتے ہیں اتراتے ہیں اور موہوم سی تسکین یوں ہی پاتے ہیں ایک چوراہے پہ سب لوگ چلے آتے ہیں ایک چوراہے پہ ملتے ہیں گزر جاتے ...

    مزید پڑھیے

    جواز

    زندگی کتنی ہے عجیب و غریب زندگی کیا ہے اک تماشا ہے زندگی رہ گزار بے منزل بے طلب بے حصول جینا ہے ہیں فقط چند لوگ ہی مختار اور باقی جو ہیں وہ بندے ہیں کیا پھرے ہیں گلے میں لٹکائے رنج و مظلومیت کے پھندے ہیں پھر بھی جیتے ہیں کیا خبر کیا ہو کچھ دوامی نہیں نظام کہن گرچہ ہے یہ مقام‌ درد و ...

    مزید پڑھیے

    علم

    کون جانے کہ یہ خورشید ہے نا‌ خوب کہ خوب چاند اچھا کہ برا کون بتا سکتا ہے خوش کہ نا خوش ہیں یہ شمعیں یہ ستارے یہ شفق کون یہ پردۂ اسرار اٹھا سکتا ہے ہاں یہ ممکن ہے شعاعیں ہوں ضرر کا باعث کون کہتا ہے اجالوں سے کرو کسب زیاں روشنی آگ سے نکلی ہے جلا سکتی ہے بات اتنی بھی سمجھ سکتے نہیں ہم ...

    مزید پڑھیے

    دیوار

    کارواں بڑھتا رہا بڑھتا رہا پے بہ پے جادہ بہ جادہ اپنی منزل کی طرف صف بہ صف شانہ بہ شانہ رہروؤں کو لے چلا جہد پیہم کا ہر اک اقدام حاصل کی طرف پھر نہ جانے کیا ہوا کیسی چلی الٹی ہوا دفعتاً قدموں کے نغمے سرد سے ہونے لگے تھک گیا عزم سفر امید کا دم گھٹ گیا شوق کے سرگرم جذبے راہ میں کھونے ...

    مزید پڑھیے

    پہچان

    اک لاش کو اک چوراہے پر کچھ لوگ کھڑے تھے گھیرے ہوئے لگتا تھا تماشا ہو جیسے سب اپنی اپنی کہتے تھے مردے کا پتا بتلانے لگے اف قوم کا اک معمار ہے یہ سب جھوٹ بڑا عیار ہے یہ رہبر ہے یہ اک سالار ہے یہ بکواس کہ اک غدار ہے یہ افسوس کہ اک فن کار ہے یہ کیا خوب ارے بیکار ہے یہ ناگاہ کہیں سے اک ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 3