غم حیات
غم حیات کے نغموں کا میں مغنی ہوں
غم حیات کی لذت کا ہوں میں شیدائی
یہ جذبہ جو دل بیتاب سے فزوں تر ہے
کہیں سے گردش شام و سحر اڑا لائی
نظر کو دیتا ہے یہ روشنی تجسس کی
یہ غم بناتا ہے دل کو دل تمنائی
یہ راز ہائے تگ و دو کو فاش کرتا ہے
یہ راہرو کو سکھاتا ہے جادہ پیمائی
اسی سے گرمیٔ بزم حیات باقی ہے
یہی ہے دہر کے ہر انقلاب کا بانی
کہیں نہ ڈس لے یہ تنہائی حیات مجھے
تو غم سے سیکھ لے آداب بزم آرائی
نہ کر حصار من و تو میں اپنا غم محدود
کہ ہو یہ عام تو پھر زندگی ہے آفاقی