آغاز

اک نئے دور کا آغاز ہوا
در آشفتہ سری باز ہوا
نا شکیبائی کی چلتی ہے ہوا
بے یقینی کی ابھرتی ہے صدا
آئے منڈلاتے ہوئے ابر شعور
لیے ہم راہ خیالات جسور
منتظر شوق ہے بے چین نڈھال
جانے کب موسم باراں آئے
ہائے تبدیلی موسم کی امید
رنگ لائے ہے بتدریج جنوں
ٹوٹنے والا ہے ہر ایک فسوں
ہاں خداؤں کی خدائی کا فسوں
کج دماغوں کی بڑائی کا فسوں
آ نئے دور تجھے چوم تو لوں