Daud Ghazi

داؤد غازی

ترقی پسند نظریات سے متأثر شاعر، کم عمری میں خودکشی کی

A poet influenced by progressive thoughts, committed suicide at an early age

داؤد غازی کے تمام مواد

8 غزل (Ghazal)

    ستم کا خوف نہیں ہے الم کی بات نہیں

    ستم کا خوف نہیں ہے الم کی بات نہیں رہ طلب میں کسی پیچ و خم کی بات نہیں وصال یار کی امید بھی عجب شے ہے ہزار غم ہیں مگر پھر بھی غم کی بات نہیں چلو کہ مل کے مداوائے غم کریں ہم لوگ ہے سب کو ایک ہی غم بیش و کم کی بات نہیں تمہاری زلف ہے ممکن ہے خود سنور جائے تمہاری زلف میں کچھ پیچ و خم کی ...

    مزید پڑھیے

    آ کے ساحل کے قریں جاتا ہوں ساحل سے پرے

    آ کے ساحل کے قریں جاتا ہوں ساحل سے پرے آ کے منزل پر چلا جاتا ہوں منزل سے پرے اپنی منزل پر پہنچ کر سوچنے لگتا ہوں میں اف رے وہ منظر سہانا ہے جو منزل سے پرے دیکھ وہ لہروں کا منظر دیکھ وہ طوفاں کا کھیل دیکھ اے ساحل‌ نشیں کیا شے ہے ساحل سے پرے رات دن دیتی ہی رہتی ہے ترے جلوؤں کا ...

    مزید پڑھیے

    غم حیات میں جیسے بھی زندگی کی ہے

    غم حیات میں جیسے بھی زندگی کی ہے تمہاری یاد تو لیکن کبھی کبھی کی ہے جو غم ملا تھا تو یہ چاہا غم زیاد ملے سیاہ شب میں تمنائے روشنی کی ہے حیات ساتھ میں لائی ہے موت کا ساماں کسی نے ہم سے بہت خوب دل لگی کی ہے یہ غم کی رات نہیں جس کی انتہا کوئی ترے بغیر بسر کچھ عجیب سی کی ہے نگاہ یار ...

    مزید پڑھیے

    تمام وقت تمہیں سے کلام کرتے ہیں

    تمام وقت تمہیں سے کلام کرتے ہیں شب فراق کا یوں اہتمام کرتے ہیں سجائے رکھتے ہیں ہر وقت ہم نئے دن رات تمہارے واسطے یہ التزام کرتے ہیں خیال یار سے کرتے ہیں صبح کا آغاز امید یار کے سائے میں شام کرتے ہیں کہاں مٹے ہیں کسی سے نقوش اہل شوق جو نا سمجھ ہیں وہ یہ سعیٔ خام کرتے ہیں چھپا کے ...

    مزید پڑھیے

    جذبۂ نو بھی تو ہے حسرت ناکام کے ساتھ

    جذبۂ نو بھی تو ہے حسرت ناکام کے ساتھ خواہش صبح ابھرتی تو ہے ہر شام کے ساتھ ہو وہ تحسین کے ہم راہ کہ دشنام کے ساتھ آ تو جاتا ہے مرا نام ترے نام کے ساتھ تیرے کوچے سے بھی گزرا ہوں میں اے حسن طلب صبح کے ساتھ کبھی اور کبھی شام کے ساتھ مشکلیں راہ میں آتی تو بہت ہیں لیکن یاد کر لیتا ہوں ...

    مزید پڑھیے

تمام

24 نظم (Nazm)

    آغاز

    اک نئے دور کا آغاز ہوا در آشفتہ سری باز ہوا نا شکیبائی کی چلتی ہے ہوا بے یقینی کی ابھرتی ہے صدا آئے منڈلاتے ہوئے ابر شعور لیے ہم راہ خیالات جسور منتظر شوق ہے بے چین نڈھال جانے کب موسم باراں آئے ہائے تبدیلی موسم کی امید رنگ لائے ہے بتدریج جنوں ٹوٹنے والا ہے ہر ایک فسوں ہاں خداؤں کی ...

    مزید پڑھیے

    تہذیب

    یہ تہذیب آخر بنائی ہے کس نے زمانے کی عزت بڑھائی ہے کس نے بنا کر بدلنے کا مختار ہے کون حیات مسلسل کا فن کار ہے کون مشینوں میں کس کا لہو چل رہا ہے یہ کس کے لہو پر جہاں پل رہا ہے بتا دو خدا کے لیے اب بتا دو حقیقت کے چہرے سے پردہ اٹھا دو

    مزید پڑھیے

    غم حیات

    غم حیات کے نغموں کا میں مغنی ہوں غم حیات کی لذت کا ہوں میں شیدائی یہ جذبہ جو دل بیتاب سے فزوں تر ہے کہیں سے گردش شام و سحر اڑا لائی نظر کو دیتا ہے یہ روشنی تجسس کی یہ غم بناتا ہے دل کو دل تمنائی یہ راز ہائے تگ و دو کو فاش کرتا ہے یہ راہرو کو سکھاتا ہے جادہ پیمائی اسی سے گرمیٔ بزم حیات ...

    مزید پڑھیے

    امید

    زیست یوں ہی نہ رہے گی مغموم زندگانی کو بدلنا ہوگا لاکھ آمادۂ سازش ہے یہ شب اس شب تیرہ کو ڈھلنا ہوگا موت کا سایہ لرزتا ہے تو کیا وقت آلام کو لایا ہے تو کیا نامۂ درد جو آیا ہے تو کیا غم کو سہہ جائیں دلاور بن کر پی لیں دریا کو سمندر بن کر غم تو آتے ہی رہیں گے پیہم آتے جاتے ہی رہیں گے ...

    مزید پڑھیے

    رات

    رات کے اندھیرے میں کتنے پاپ پلتے ہیں پوچھتا پھرے کوئی کس سے کون پاپی ہے پوچھنے سے کیا حاصل پوچھنے سے کیا ہوگا محشر اک بپا ہوگا شور ناروا ہوگا درد کم تو کیا ہوگا اور کچھ سوا ہوگا کون کس کی سنتا ہے کس کو اتنی فرصت ہے داد خواہ بننا بھی فعل بے فضیلت ہے داد سم قاتل ہے مرنا کس کو بھاتا ...

    مزید پڑھیے

تمام