دیوار
کارواں بڑھتا رہا بڑھتا رہا
پے بہ پے جادہ بہ جادہ اپنی منزل کی طرف
صف بہ صف شانہ بہ شانہ رہروؤں کو لے چلا
جہد پیہم کا ہر اک اقدام حاصل کی طرف
پھر نہ جانے کیا ہوا کیسی چلی الٹی ہوا
دفعتاً قدموں کے نغمے سرد سے ہونے لگے
تھک گیا عزم سفر امید کا دم گھٹ گیا
شوق کے سرگرم جذبے راہ میں کھونے لگے
کارواں والو دلائے تم کو کون اس کا یقیں
جس کی خواہش میں بڑھے ہو تم وہ منزل ہے قریں