پہچان
اک لاش کو اک چوراہے پر
کچھ لوگ کھڑے تھے گھیرے ہوئے
لگتا تھا تماشا ہو جیسے
سب اپنی اپنی کہتے تھے
مردے کا پتا بتلانے لگے
اف قوم کا اک معمار ہے یہ
سب جھوٹ بڑا عیار ہے یہ
رہبر ہے یہ اک سالار ہے یہ
بکواس کہ اک غدار ہے یہ
افسوس کہ اک فن کار ہے یہ
کیا خوب ارے بیکار ہے یہ
ناگاہ کہیں سے اک بڑھیا
لاٹھی کے سہارے آگے بڑھی
اور لاش پہ گر کر کہنے لگی
لوگو یہ میرا بیٹا ہے
یہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے
یہ میری آنکھ کا تارا ہے
فاقوں نے دیا ہے اس کو جنم
یہ صبح الم یہ شام ستم