ایاز اعظمی کی غزل

    پھر وہی تجدید موسم ہو گئی

    پھر وہی تجدید موسم ہو گئی وہ لہو برسا زمیں نم ہو گئی برگ و گل کے جسم نیلے پڑ گئے باغ کی تازہ ہوا سم ہو گئی کیا کہا موج ہوا نے شام سے لو چراغوں کی جو مدھم ہو گئی کیا خبر کس سوچ میں ڈوبا ہے چاند بام و در کی روشنی کم ہو گئی عشق کا میدان خالی ہو گیا شوق کی تلوار بے دم ہو گئی آسماں سے ...

    مزید پڑھیے

    حرماں کے دائرے سے نکل جانا چاہئے

    حرماں کے دائرے سے نکل جانا چاہئے جو بجھ گیا چراغ وہ جل جانا چاہئے آؤ کہ لب پہ شعلۂ حرف نوا سہی یہ رات کا حصار پگھل جانا چاہئے اٹھنے لگا نوشتۂ دیوار سے دھواں اس وقت آدمی کو سنبھل جانا چاہئے شہر انا میں پھر کوئی پتھر اچھال دوں اس بار پھر حریف کو جل جانا چاہئے حالات کے سبو میں جو ...

    مزید پڑھیے

    تم ہو قطرہ تو قدم حد سے نہ باہر رکھنا

    تم ہو قطرہ تو قدم حد سے نہ باہر رکھنا دل مگر سات سمندر کے برابر رکھنا زیب دیتی تو ہے دستار مگر سرو قدو سر ذرا طرۂ دستار سے باہر رکھنا جستجو اپنی ضرورت ہے طلب اپنی غرض کام اپنا ہے تو کیوں بار کسی پر رکھنا زہر احساس کی تلخی لئے گھر مت جانا دن تو کجلایا مگر رات منور رکھنا چارپائی ...

    مزید پڑھیے

    فرحت بوئے سمن نکہت ریحان غزل

    فرحت بوئے سمن نکہت ریحان غزل تجھ سے روشن ہے مری شمع شبستان غزل بوئے گل لے کے صبا آئی گھٹائیں چھائیں پھر اٹھا قلزم جذبات میں طوفان غزل آسماں چاند ستاروں سے سجا شمع جلی شام کیا آئی کہ روشن ہوا ایوان غزل ظلم ہے ریشمیں احساس پہ خنجر رکھنا نکتہ چیں ہوش کہ نازک ہے رگ جان غزل ذرہ ...

    مزید پڑھیے

    منتشر منتشر ہیں خواب بہت

    منتشر منتشر ہیں خواب بہت روشنی بن گئی عذاب بہت دل سلامت تو روشنی کے لئے آفتاب اور ماہتاب بہت قطرے قطرے میں ہے طلسم ہزار ذرے ذرے میں ہے سیراب بہت عشرت تابش گہر نہ سہی انبساط سرشک ناب بہت اک ہمیں تو نہیں ہیں خاک بسر ہم سے ہیں خانماں خراب بہت دھوپ سے تمتما رہا ہے وجود ہے ابھی ...

    مزید پڑھیے

    حاصل زیست ضیائے خط تقدیر ہو تم

    حاصل زیست ضیائے خط تقدیر ہو تم بزم احساس میں بکھری ہوئی تنویر ہو تم کیا ہوا لب پہ تبسم نہیں دلگیر ہو تم کس مصور کی بنائی ہوئی تصویر ہو تم اف یہ قامت یہ قد آرائی یہ زیبائش رنگ نقش مانی ہو کہ بہزاد کی تصویر ہو تم اپنے ہاتھوں سے تراشا ہے تمہارا پیکر پھر بھی میرے لئے ناقابل تسخیر ...

    مزید پڑھیے

    سورج سر کے اوپر ہے

    سورج سر کے اوپر ہے قدموں میں اپنا سر ہے آنکھیں نم دامن تر ہے دل کی پیاس سمندر ہے ہنگامہ سب اندر ہے منظر پھر بھی منظر ہے چیختے دریاؤں کا جنوں اپنی حد سے باہر ہے فطرت کا ہے سحر کہ دل آئینہ ہے پتھر ہے ہم بھی ایک پرندے ہیں برگ شجر اپنا گھر ہے عزت شہرت رسوائی جو بھی ہے جرأت بھر ...

    مزید پڑھیے

    زہر غم بے مزا نہیں ہوتا

    زہر غم بے مزا نہیں ہوتا پھر بھی کیوں حوصلہ نہیں ہوتا دیکھ لیتا ہے مجھ میں عکس اپنا اور وہ خود آئنہ نہیں ہوتا سارے رشتے چراغ جلنے تک پھر کوئی آشنا نہیں ہوتا مصلحت بن گئی ہے مہر سکوت اب کوئی لب کشا نہیں ہوتا لب نہ کھولو کہ لوگ کہتے ہیں اس زمانے میں کیا نہیں ہوتا کیا ہنسے کوئی ...

    مزید پڑھیے

    دھواں دھواں ہے غم گردش سفر سے چراغ

    دھواں دھواں ہے غم گردش سفر سے چراغ عجیب سہمے ہوئے ہیں ہوا کے ڈر سے چراغ عجب طلسم کدہ ہے یہ جبر فطرت کا کہ روشنی میں رہے روشنی کو ترسے چراغ یہ خامشی کا بیاباں یہ شب کا کوہ سکوت یہ خواب خواب سا منظر یہ بے خبر ہے چراغ یہ وقت ایسا سمندر کہ جس کے دامن میں صدف صدف سی ہیں راتیں گہر گہر ...

    مزید پڑھیے

    سحاب فصل گل ہے برگ آوارہ نہیں ہے وہ

    سحاب فصل گل ہے برگ آوارہ نہیں ہے وہ چلو مانا کسی کی آنکھ کا تارا نہیں ہے وہ چراغ رہ گزر ہے راستی ہے اس کی فطرت میں خلاؤں میں بھٹکنے والا سیارہ نہیں ہے وہ دکانیں مت سجاؤ قیمتی جذبوں کو مت بیچو غزل کا پھول ہے کاغذ کا پشتارہ نہیں ہے وہ ہم اپنی پیاس لے کر غم کے صحرا میں بھٹکتے ...

    مزید پڑھیے