حرماں کے دائرے سے نکل جانا چاہئے
حرماں کے دائرے سے نکل جانا چاہئے
جو بجھ گیا چراغ وہ جل جانا چاہئے
آؤ کہ لب پہ شعلۂ حرف نوا سہی
یہ رات کا حصار پگھل جانا چاہئے
اٹھنے لگا نوشتۂ دیوار سے دھواں
اس وقت آدمی کو سنبھل جانا چاہئے
شہر انا میں پھر کوئی پتھر اچھال دوں
اس بار پھر حریف کو جل جانا چاہئے
حالات کے سبو میں جو ہے موجزن ایازؔ
دل کے تہی ایاغ میں ڈھل جانا چاہئے