سورج سر کے اوپر ہے
سورج سر کے اوپر ہے
قدموں میں اپنا سر ہے
آنکھیں نم دامن تر ہے
دل کی پیاس سمندر ہے
ہنگامہ سب اندر ہے
منظر پھر بھی منظر ہے
چیختے دریاؤں کا جنوں
اپنی حد سے باہر ہے
فطرت کا ہے سحر کہ دل
آئینہ ہے پتھر ہے
ہم بھی ایک پرندے ہیں
برگ شجر اپنا گھر ہے
عزت شہرت رسوائی
جو بھی ہے جرأت بھر ہے
دل میں اٹھے کیا لہر ایازؔ
یہ بھی خشک سمندر ہے