دھواں دھواں ہے غم گردش سفر سے چراغ
دھواں دھواں ہے غم گردش سفر سے چراغ
عجیب سہمے ہوئے ہیں ہوا کے ڈر سے چراغ
عجب طلسم کدہ ہے یہ جبر فطرت کا
کہ روشنی میں رہے روشنی کو ترسے چراغ
یہ خامشی کا بیاباں یہ شب کا کوہ سکوت
یہ خواب خواب سا منظر یہ بے خبر ہے چراغ
یہ وقت ایسا سمندر کہ جس کے دامن میں
صدف صدف سی ہیں راتیں گہر گہر سے چراغ
مری رگوں میں لہو کی شعاع ہو کہ نہ ہو
ہزارہا ہیں فروزاں مرے ہنر سے چراغ
میں کیا دکھاؤں عروس غزل کا رنگ جمال
ابھی ایازؔ بہت دور ہے نظر سے چراغ