منتشر منتشر ہیں خواب بہت

منتشر منتشر ہیں خواب بہت
روشنی بن گئی عذاب بہت


دل سلامت تو روشنی کے لئے
آفتاب اور ماہتاب بہت


قطرے قطرے میں ہے طلسم ہزار
ذرے ذرے میں ہے سیراب بہت


عشرت تابش گہر نہ سہی
انبساط سرشک ناب بہت


اک ہمیں تو نہیں ہیں خاک بسر
ہم سے ہیں خانماں خراب بہت


دھوپ سے تمتما رہا ہے وجود
ہے ابھی تیز آفتاب بہت