پھر وہی تجدید موسم ہو گئی

پھر وہی تجدید موسم ہو گئی
وہ لہو برسا زمیں نم ہو گئی


برگ و گل کے جسم نیلے پڑ گئے
باغ کی تازہ ہوا سم ہو گئی


کیا کہا موج ہوا نے شام سے
لو چراغوں کی جو مدھم ہو گئی


کیا خبر کس سوچ میں ڈوبا ہے چاند
بام و در کی روشنی کم ہو گئی


عشق کا میدان خالی ہو گیا
شوق کی تلوار بے دم ہو گئی


آسماں سے رفعتیں نازل ہوئیں
جب جبیں انسان کی خم ہو گئی


یہ ہوائے سرد کی لہریں ایازؔ
آنسوؤں کی بوند شبنم ہو گئی