حاصل زیست ضیائے خط تقدیر ہو تم
حاصل زیست ضیائے خط تقدیر ہو تم
بزم احساس میں بکھری ہوئی تنویر ہو تم
کیا ہوا لب پہ تبسم نہیں دلگیر ہو تم
کس مصور کی بنائی ہوئی تصویر ہو تم
اف یہ قامت یہ قد آرائی یہ زیبائش رنگ
نقش مانی ہو کہ بہزاد کی تصویر ہو تم
اپنے ہاتھوں سے تراشا ہے تمہارا پیکر
پھر بھی میرے لئے ناقابل تسخیر ہو تم
میں نے جس خواب سے تنویر محبت لی ہے
کیا اسی خواب کا آئینۂ تعبیر ہو تم
یاد آتا ہے یہ دیکھا ہے کہ دیکھا بھی نہیں
صفحۂ ذہن سے اتری ہوئی تحریر ہو تم
ٹوٹنے کے نہیں غفلت کے طلسمات ایازؔ
عالم خواب میں پا بستۂ زنجیر ہو تم