تم ہو قطرہ تو قدم حد سے نہ باہر رکھنا

تم ہو قطرہ تو قدم حد سے نہ باہر رکھنا
دل مگر سات سمندر کے برابر رکھنا


زیب دیتی تو ہے دستار مگر سرو قدو
سر ذرا طرۂ دستار سے باہر رکھنا


جستجو اپنی ضرورت ہے طلب اپنی غرض
کام اپنا ہے تو کیوں بار کسی پر رکھنا


زہر احساس کی تلخی لئے گھر مت جانا
دن تو کجلایا مگر رات منور رکھنا


چارپائی کے برابر بھی فراخی نہ ملی
پاؤں پھیلانا کہاں اور کہاں سر رکھنا


موج خوں شعلہ نما شہر چٹختی لاشیں
ہائے کس طرح سے آنکھوں میں یہ منظر رکھنا


صحن جاں تازہ ہوا سے نہ ہو محروم ایازؔ
ایک دیوار اٹھانا تو کئی در رکھنا