زہر غم بے مزا نہیں ہوتا
زہر غم بے مزا نہیں ہوتا
پھر بھی کیوں حوصلہ نہیں ہوتا
دیکھ لیتا ہے مجھ میں عکس اپنا
اور وہ خود آئنہ نہیں ہوتا
سارے رشتے چراغ جلنے تک
پھر کوئی آشنا نہیں ہوتا
مصلحت بن گئی ہے مہر سکوت
اب کوئی لب کشا نہیں ہوتا
لب نہ کھولو کہ لوگ کہتے ہیں
اس زمانے میں کیا نہیں ہوتا
کیا ہنسے کوئی مسکرائے کیا
رقص گل بے صبا نہیں ہوتا
کیا کہیں وقت کی کماں کو ایازؔ
تیر کوئی خطا نہیں ہوتا