سحاب فصل گل ہے برگ آوارہ نہیں ہے وہ
سحاب فصل گل ہے برگ آوارہ نہیں ہے وہ
چلو مانا کسی کی آنکھ کا تارا نہیں ہے وہ
چراغ رہ گزر ہے راستی ہے اس کی فطرت میں
خلاؤں میں بھٹکنے والا سیارہ نہیں ہے وہ
دکانیں مت سجاؤ قیمتی جذبوں کو مت بیچو
غزل کا پھول ہے کاغذ کا پشتارہ نہیں ہے وہ
ہم اپنی پیاس لے کر غم کے صحرا میں بھٹکتے ہیں
ہمیں کیا ہے اگر دھارا ہے یا دھارا نہیں ہے وہ
یہ بے چینی ذرا سی میٹھا میٹھا درد تھوڑا سا
شرار رنگ کی تمثیل ہے پارہ نہیں ہے وہ
اگا سکتا ہوں لفظوں کی زمیں سے لالۂ معنی
کہ میرے ذہن میں جو کچھ ہے انگارہ نہیں ہے وہ
اسے میں جانتا ہوں سب اسی پر جان دیتے ہیں
ایاز اعظمیؔ آخر تمہیں پیارا نہیں ہے وہ