Asim Bakhshi

عاصم بخشی

پاکستان کی نئی نسل کے شاعر اور مترجم

New generation poet and translator from Pakistan

عاصم بخشی کی غزل

    رات بھر شعلۂ جاں خوب بڑھایا جائے

    رات بھر شعلۂ جاں خوب بڑھایا جائے پھر دم صبح ہی خوابوں کو جلایا جائے جب قضا لکھ ہی چکی سلسلۂ راہ فنا کیوں نہ پھر وقت اجل جلد بلایا جائے ساعت شام غم ہجر کا سناٹا ہے شہر اوہام کو سپنوں سے سجایا جائے جدت وحشت صحرا کے لیے لازم ہے دشت کے بیچ اب اک شہر بسایا جائے بار جاں لاد لیا سر ...

    مزید پڑھیے

    جواب مانگتا تھا میں سوال دے دیا گیا

    جواب مانگتا تھا میں سوال دے دیا گیا تلاش در تلاش کا وبال دے دیا گیا عطا ہوا تھا جب یقیں کی سبز وادیوں میں گھر تو کیوں در گماں پس خیال دے دیا گیا مری زمین چشم نم میں خواب بو دیے گئے مجھے خمیر شوق لا زوال دے دیا گیا ہواؤں کو دیار دل کی رات سونپ دی گئی بدن کو شمع ناتواں کا حال دے دیا ...

    مزید پڑھیے

    کیا تمہیں یاد ہے انسان ہوا کرتے تھے

    کیا تمہیں یاد ہے انسان ہوا کرتے تھے یہ بیاباں کبھی گنجان ہوا کرتے تھے وقت تھم جاتا تھا دھڑکن کی صدا سنتے ہوئے جب ترے آنے کے امکان ہوا کرتے تھے سانس رک جاتی تھی لہجے میں کسک ہوتی تھی جس سمے کوچ کے اعلان ہوا کرتے تھے نامہ بر آتا تھا رستے بھی تکے جاتے تھے کیا جواں وقت تھا رومان ...

    مزید پڑھیے

    جنوں کے قافلوں کی بے نشاں منزل کا کیا کہنا

    جنوں کے قافلوں کی بے نشاں منزل کا کیا کہنا اسیران خرد کے حال میں شامل کا کیا کہنا جمال مستیٔ غرقاب میں دم خم تو ہے لیکن کسی چشم فنا کی خواہش ساحل کا کیا کہنا درون ازدحام مردماں گر خود سے ملنا ہو تو ایسی اتفاقی منفرد محفل کا کیا کہنا ہے گر اپنا مقدر کشتۂ تیغ جفا ہونا تو پھر ایک ...

    مزید پڑھیے

    کیا یہ ممکن ہے کہ اک خواب مسلسل دیکھوں

    کیا یہ ممکن ہے کہ اک خواب مسلسل دیکھوں نیند کھل جائے تو منظر یہی پھر کل دیکھوں نیم وا پردۂ دل کاش گرا دے کوئی دیکھ پاؤں ترا چہرہ تو مکمل دیکھوں قاف کے پار کسی دیس میں جا کر اتروں آسماں پر تجھے نمناک سا بادل دیکھوں دشت امکاں سے پرے وقت کے در پر پہنچوں ایک لمحے کو جکڑ لوں اسے پل ...

    مزید پڑھیے

    جانے کیوں ہے ذہن غالب کہ میں سویا ہوا ہوں

    جانے کیوں ہے ذہن غالب کہ میں سویا ہوا ہوں آئنہ خانۂ افلاک میں کھویا ہوا ہوں ہوں مثلث یا کوئی دائرہ تجریدی سا ذہن یزداں میں میں تمثیل سا گویا ہوا ہوں ندیاں بھر گئیں لبریز ہیں دریا سارے ہے یہ برسات کی جل تھل کہ میں رویا ہوا ہوں جانتا ہوں کہ یہ حسرت ہی مری منزل ہے شوق کی تشنہ ...

    مزید پڑھیے

    گماں کے رخش سبک کی ایال تھامے ہوئے

    گماں کے رخش سبک کی ایال تھامے ہوئے بھٹک رہا ہوں جنوں میں خیال تھامے ہوئے بقا کی جنگ میں خود سے فلک سے دنیا سے میں لڑ رہا ہوں تمنا کی ڈھال تھامے ہوئے وہ کشمکش بھی شناسائیوں کی کیا ہوگی ملیں گے خود سے جب اپنے سفال تھامے ہوئے ہر ایک پل کوئی بار گراں سا لگتا ہے کہ جیسے لمحہ گزارتا ...

    مزید پڑھیے

    زندگانی سے لپٹ کر خود کو بہلاتا ہوں میں

    زندگانی سے لپٹ کر خود کو بہلاتا ہوں میں یہ کہانی روز اپنے آپ دہراتا ہوں میں صبح دم میں کھولتا ہوں قفل جس زندان کا دن ڈھلے اس قید خانے میں پلٹ آتا ہوں میں پاٹتا رہتا ہوں دن بھر اک خلیج ذات کو پھر کسی انجان اندیشے سے پچھتاتا ہوں میں دن چڑھے اوہام کی منڈی میں سودا بیچ کر رات کو ...

    مزید پڑھیے

    عجیب شخص ہوں فرط وبال ہوتے ہوئے

    عجیب شخص ہوں فرط وبال ہوتے ہوئے فراق مانگ رہا ہوں وصال ہوتے ہوئے نڈھال اپنے تماشائیوں کے جھرمٹ میں میں خود کو دیکھ رہا ہوں خیال ہوتے ہوئے بس ایک ورزش تحریر لوح ہستی پر بس اک سوال کی دھن خود سوال ہوتے ہوئے کچھ اس کمال سے روندا گیا ہوں مستی میں بہت سکون ہے اب پائمال ہوتے ...

    مزید پڑھیے

    ہر دم کچھ اضطراب کے ایسے بھنور میں ہوں

    ہر دم کچھ اضطراب کے ایسے بھنور میں ہوں جیسے کسی دعائے ضرر کے اثر میں ہوں بہہ جاؤں بن کے سیل رواں اس زمین پر میں اک اداس شام کسی چشم تر میں ہوں خود کی تلاش میں ہی زمانے گزر گئے کیا اپنی جستجو ہی کے دام سحر میں ہوں جیسے کسی اجاڑ خرابے میں گونج ہو موجود اس طرح ترے دیوار و در میں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2