جانے کیوں ہے ذہن غالب کہ میں سویا ہوا ہوں
جانے کیوں ہے ذہن غالب کہ میں سویا ہوا ہوں
آئنہ خانۂ افلاک میں کھویا ہوا ہوں
ہوں مثلث یا کوئی دائرہ تجریدی سا
ذہن یزداں میں میں تمثیل سا گویا ہوا ہوں
ندیاں بھر گئیں لبریز ہیں دریا سارے
ہے یہ برسات کی جل تھل کہ میں رویا ہوا ہوں
جانتا ہوں کہ یہ حسرت ہی مری منزل ہے
شوق کی تشنہ زمینوں میں جو بویا ہوا ہوں
درد کا کیا ہے مرے چھید مجھے پیارے ہیں
میں تمناؤں کے کانٹوں میں پرویا ہوا ہوں
چیرتی ہے جو صدا موت سے سناٹے کو
کیا یہ تو ہے یا میں اپنے ہی سے گویا ہوا ہوں
میرے چہرے کی درخشانی سے مایوس نہ ہو
صرف اتنا ہے کہ اشکوں سے میں دھویا ہوا ہوں
گشت افلاک کی حاجت مجھے کیوں کر ہوگی
میں خود اپنے ہی خلاؤں میں سمویا ہوا ہوں
عاصمؔ اب کے جو میں ڈوبوں تو کچھ ایسے نکلوں
جیسے لفظوں کے سمندر میں بھگویا ہوا ہوں