رات بھر شعلۂ جاں خوب بڑھایا جائے

رات بھر شعلۂ جاں خوب بڑھایا جائے
پھر دم صبح ہی خوابوں کو جلایا جائے


جب قضا لکھ ہی چکی سلسلۂ راہ فنا
کیوں نہ پھر وقت اجل جلد بلایا جائے


ساعت شام غم ہجر کا سناٹا ہے
شہر اوہام کو سپنوں سے سجایا جائے


جدت وحشت صحرا کے لیے لازم ہے
دشت کے بیچ اب اک شہر بسایا جائے


بار جاں لاد لیا سر پہ اور اب سوچتے ہیں
اتنا کافی ہے کہ کچھ بوجھ بڑھایا جائے


کرۂ دید کو دوران تقاضائے نظر
کشش ثقل نظارہ سے چھڑایا جائے


شورش خاک و لہو دیکھ کے اس نے سوچا
کیوں نہ اب اشک سے انسان بنایا جائے


تہ سے لے آئیں اسے ہم مگر اتنا تو کھلے
کتنی گہرائی میں جا کر اسے پایا جائے