گماں کے رخش سبک کی ایال تھامے ہوئے

گماں کے رخش سبک کی ایال تھامے ہوئے
بھٹک رہا ہوں جنوں میں خیال تھامے ہوئے


بقا کی جنگ میں خود سے فلک سے دنیا سے
میں لڑ رہا ہوں تمنا کی ڈھال تھامے ہوئے


وہ کشمکش بھی شناسائیوں کی کیا ہوگی
ملیں گے خود سے جب اپنے سفال تھامے ہوئے


ہر ایک پل کوئی بار گراں سا لگتا ہے
کہ جیسے لمحہ گزارتا ہوں سال تھامے ہوئے


سروش غیب کے معبد کے سامنے مسجود
سبھی جواب ہیں گم سم سوال تھامے ہوئے


میں زیر موج بلا صرف اتنا دیکھ سکا
ضعیف ہاتھ پرانا سا جال تھامے ہوئے


زمین چشم کی اندھی عمیق تہ میں کہیں
غصیل خواب ہیں عاصمؔ کدال تھامے ہوئے