ہر دم کچھ اضطراب کے ایسے بھنور میں ہوں

ہر دم کچھ اضطراب کے ایسے بھنور میں ہوں
جیسے کسی دعائے ضرر کے اثر میں ہوں


بہہ جاؤں بن کے سیل رواں اس زمین پر
میں اک اداس شام کسی چشم تر میں ہوں


خود کی تلاش میں ہی زمانے گزر گئے
کیا اپنی جستجو ہی کے دام سحر میں ہوں


جیسے کسی اجاڑ خرابے میں گونج ہو
موجود اس طرح ترے دیوار و در میں ہوں


منزل شناس بن نہ سکا میں تو کیا ہوا
اتنا تو جانتا ہوں کہ راہ سفر میں ہوں


عاصمؔ مزاج میں ہیں تمنائیں اس طرح
جیسے میں آج تک کوئی بچہ سا گھر میں ہوں